کاروار 29؍مارچ (ایس او نیوز) سپریم کورٹ کی ہدایات کے پس منظر میں قائم شدہ خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی روک تھا م کمیٹی کے چیر مین و ی ایس اوگرپّا نے ضلع شمالی کینرا کے مختلف شعبہ جات کی نشست طلب کی اور خواتین پر ہونے والے جنسی ہراسانی معاملات کو روکنے کے لیے گزشتہ دس برسوں میں کیے گئے اقدامات کی رپورٹ مانگی۔ مگر جس انداز میں افسران نے انہیں رپورٹیں پیش کیں اس پر مسٹر اوگرپّا نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلع شمالی کینرا کو عقلمند اور ذہین افراد کا مرکز کہا جاتاہے لیکن ان رپورٹوں کو دیکھنے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ کسی نے بھی اسکول میں دوسری جماعت کا امتحان بھی پاس کیا ہوگا۔انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہارمیٹنگ کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ پولیس سپرنٹنڈنٹ اور ضلع پنچایت کے سی ای او جیسے اعلیٰ افسران نے بھی کمیٹی کے سوالات کا مناسب انداز میں جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں میں عورتوں اور بچو ں پر مظالم کے 2,098 معاملات درج ہوئے ہیں۔جن میں 230جنسی حملوں کے واقعات ہیں۔اور94 Pocso Act کے کیس ہیں جن میں سے صرف ایک کو سزا ہوئی ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف2.4%مجرموں کو سزا ملی ہے اور بقیہ 97.60 ملزمین سزا سے چھوٹ گئے ہیں۔
مسٹر اوگرپا نے ضلع میں مرد و عورت کی آبادی کے تناسب پر بھی اپنی بے اطمینانی جتاتے ہوئے کہا کہ فی الحال ضلع میں ایک ہزار مردوں پر عورتوں کا تناسب979ہے ۔ جبکہ سرسی اور منڈگوڈ میں یہ شرح اور بھی کم ہوگئی ہے۔اس کی طرف حکام کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ آئندہ 15برسوں میں سماجی توازن بہت زیادہ بگڑجانے کا خدشہ ہے۔ان کے بیان کے مطابق ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی فلاح و بہبود کے لئے جاری کیا گیا فنڈ بھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔مسٹرا وگرپا نے افسران کوان کے ذریعے پوچھے گئے تمام معاملات پر اطمینان بخش جواب بھیجنے کے لئے پندرہ دن کی مہلت دی ہے۔